حضرت مولانا شمس الدین محمد بن علی بن ملک داؤد تبریزی رحمۃاللہ علیہ
- Admin
- Mar 16, 2021
آپ کا نام شمس تبریزی یا شمس الدین محمدؒ ہے۔ آپؒ ایران کے مشہور صوفی اور مولانا رومؒ کے روحانی استاذ تھے۔ روایت ہے کہ حضرت شمس تبریزی رحمۃاللہ علیہ نے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو قونیہ میں چالیس دن خلوت میں تعلیم دی اور دمشق روانہ ہو گئے۔ ابھی حال ہی میں ان کے مقبرے کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کے لیے نامزد کیا ہے۔
آپ رحمۃاللہ علیہ 15 شعبان المعظم 560 ہجری کو ایران کے شہر سبزوار میں پیدا ہوئے۔
آپؒ کا شجرہ مبارک امام جعفر رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
آپؒ کے والد کا نام علاؤ الدینؒ اور (نفحات الانس) میں علی بن ملک داؤد تبریزیؒ لکھا ہے۔
حضرت مولانا شمس الدین محمد تبریزی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ابھی مکتب میں تھا اور بالغ نہ ہوا تھا کہ سیرتِ محمدی کے عشق کی وجہ سے مجھ کو کھانے کی آرزو نہ ہوتی تھی۔ اگر کھانے کی بات ہوتی تو میں ہاتھ اور سر سے منع کر دیتا تھا۔
آپ رحمۃاللہ علیہ شیخ ابوبکر زنبیل باف تبریزیؒ کے مرید ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ شیخ رکن الدین سنجانیؒ کے مرید ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ بابا کمال جندیؒ کے مرید ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ رحمۃاللہ علیہ سب کی خدمت میں پہنچے ہوں اور سب سے تربیت پائی ہو۔
1- برگزیدۂ دیوان شمس تبریزیؒ
2- مثنوی حضرت شمس تبریزؒ
1- ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ جس نے مولانا رومؒ کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کا کتب خانہ نادر و نایاب تصنیفات کی موجودگی کے سبب پورے ملک میں ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ ایک دن مولانا رومؒ اسی کتب خانے میں شاگردوں کو درس دے رہے تھے، اچانک ایک اجنبی شخص اجازت کے بغیر اندر چلا آیا۔ مولانا رومؒ فطرتاً ایک متواضع انسان تھے اس لئے اجنبی کی اس طرح آمد پر ناراض تو نہیں ہوئے لیکن پھر بھی انہیں اس شخص کا آنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ اجنبی اپنے حلیے کے اعتبار سے ایک عام سا آدمی تھا پریشان حال چہرے پر وحشت کا رنگ، معمولی لباس مختصر یہ کہ اجنبی کی ظاہری شخصیت نہایت ہی غیر موثر تھی اس لئے حاضرین میں سے کسی نے بھی اسے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔ خود مولانا رومؒ نے اس پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور شاگردوں کو درس دینے میں مشغول ہو گئے۔ اجنبی نے آتے ہی اہل مجلس کو سلام کیا تھا اور پھر حاضرین کی صفوں سے گزرتا ہوا مولانا رومؒ کے قریب جا کر بیٹھ گیا تھا۔ مولانا کے شاگردوں کو اجنبی کی یہ بے تکلفانہ ادا بھی سخت ناگوار گزری تھی مگر وہ استاد کے احترام میں خاموش رہے تھے۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اجنبی شخص کو مجلس علم سے نکال دیتے یا پھر کم سے کم اسے سب سے پچھلی قطار میں بیٹھنے پر مجبور کر دیتے۔۔۔لیکن وہ ادب کے پیشِ نظر ایسا نہ کر سکے پھر بھی ان کے ذہنوں میں اجنبی کے لئے نا پسندیدگی کا غبار بھر گیا تھا۔ مولانا رومؒ کا درس جاری رہا۔ اس دوران حاضرین نے محسوس کیا کہ اجنبی شخص کو مولانا رومؒ کے درس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بار بار قیمتی کتابوں کے ذخیرے کو دیکھ رہا تھا آخر اس سے ضبط نہ ہوا تو درس کے دوران ہی بول اٹھا۔
"مولانا! یہ کیا ہے؟” اجنبی نے نادر و نایاب کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مولانا رومؒ کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا۔ آپ کو اجنبی کی اس جاہلانہ مداخلت سے اذیت پہنچی تھی مگر مولانا نے فوراً ہی اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔ "ذرا صبر کرو! میں اپنا کام مکمل کر لوں پھر تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔” مولانا رومؒ بڑے شیریں کلام تھے مگر اجنبی کی اس غیر اخلاقی حرکت کے باعث آپ کے لہجے میں ہلکی سی تلخی شامل ہو گئی تھی۔
اجنبی نے پھر کوئی سوال نہیں کیا مگر وہ بدستور مولانا رومؒ کے کتب خانے کا جائزہ لیتا رہا۔
آخر مولانا کا درس ختم ہوا اور آپ اس اجنبی کی طرف متوجہ ہوئے جس کی ناشائستہ حرکات نے حاضرین مجلس کے ذہنوں میں تکدر پیدا کر دیا تھا۔
"آپ کون ہیں اور یہاں کس لئے تشریف لائے ہیں؟ ” مولانا رومؒ اجنبی سے مخاطب ہوئے۔
"مولانا! آپ میرے بارے میں دریافت نہ کریں کہ میں کون ہوں؟”اجنبی نے کہا۔ "بس مجھے میرے سوال کا جواب دے دیجئے کہ یہ کیا ہے؟” اجنبی کے اٹھے ہوئے ہاتھ کا رخ کتابوں کی طرف تھا۔
اجنبی کا سوال مہمل تھا۔ بالآخر مولانا رومؒ کا لہجہ تلخ ہو گیا۔ "کیا تمہاری بینائی کمزور ہے؟”
"ہرگز نہیں؟” اجنبی نے جواب دیا۔ "میں تو بہت دور تک دیکھ سکتا ہوں۔”
"پھر تمہیں نظر نہیں آتا کہ یہ کیا ہے؟” اجنبی کی بے سروپا گفتگو نے مولانا جلال الدین رومیؒ جیسے شیریں بیان اور متحمل مزاج انسان کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا تھا۔
"مجھے تو بہت کچھ نظر آ رہا ہے مگر میں آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں کہ یہ کیا ہے؟” اجنبی بار بار ایک ہی سوال کو دہرائے جا رہا تھا۔
مولانا رومؒ کو اجنبی کا لہجہ بہت ناگوار گزرا۔ آخر آپ نے تلخ لہجے میں فرمایا۔ ” یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔”
مولانا کا جواب سن کر اجنبی کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کتابوں کی طرف اشارہ کیا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔ "اچھا! یہ وہ ہے جسے میں نے جانتا۔” ابھی فضاء میں اجنبی کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ یکایک کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور مولانا رومؒ کی نادر و نایاب کتابیں جلنے لگیں۔ یہ سب کچھ اس قدر ناقابل یقین تھا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ دم بخود رہ گئے اور حاضرین مجلس پر سکتہ طاری ہو گیا۔
اجنبی بے نیازانہ آگے بڑھا۔ مولانا رومؒ نے پکار کر کہا۔ "اے شخص! یہ کیا ہے؟” مولانا نے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف اشارہ کیا۔
اجنبی مسرطایا۔ "مولانا! یہ وہ ہے جسے آپ نہیں جانتے۔” اتنا کہہ کر اجنبی واپس جانے لگا۔
مولانا رومؒ کے ہونٹوں سے آہ سرد نکلی۔ "ہائے! میری نادر و نایاب کتابیں؟ اے شخص! تیری وجہ سے سب کچھ راکھ ہو گیا۔”
اجنبی جاتے جاتے رک گیا اور پھر مڑ کر مولانا رومؒ سے مخاطب ہوا۔ "اگر یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے تو پھر میں تمہیں تمہاری کتابیں واپس کرتا ہوں۔” یہ کہہ کر اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔۔۔ اور پھر حاضرین نے دیکھا کہ بھڑکتے ہوئے شعلے بجھ گئے اور مولانا رومؒ کے کتب خانے میں آگ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس کے بعد اجنبی کچھ کہے بیر تیزی کے ساتھ چلا گیا۔
پھر جب حیرتیں کم ہوئیں اور اہل مجلس کے حواس بحال ہوئے تو شاگردوں نے مولانا رومؒ سے عرض کیا۔ "استادِ محترم! یہ سب کچھ کیا ہے؟”
مولانا جلال الدین رومیؒ نے بڑے حسرت زدہ لہجے میں فرمایا۔ "یہ وہ ہے جسے میں بھی نہیں جانتا اور تم بھی نہیں جانتے۔”
کچھ تذکرہ نویسوں نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک دن مولانا رومؒ حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے مطالعہ کر رہے تھے۔ اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور مولانا کے قریب رکھی ہوئی کتابوں کے بارے میں پوچھنے لگا کہ یہ کیا ہے؟
مولانا رومؒ نے جواب دیا۔ ” یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔”
اجنبی نے مولانا سے مزید کوئی سوال نہیں کیا اور تمام کتابیں اٹھا کر حوض میں ڈال دیں۔
مولانا رومؒ ایک غیر مذہب اجنبی کی اس حرکت کو برداشت نہ کر سکے اور سخت طیش کے عالم میں فرمانے لگے۔ "اے جاہل شخص! تجھے خبر ہے کہ تو نے کیسی نادر و نایاب کتابیں تباہ کر ڈالیں یہ وہ قیمتی نسخے تھے جو کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہیں ہوں گے۔”
اجنبی نے مولانا رومؒ کو شدید اضطراب میں مبتلا دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ ” اگر یہ بات ہے تو میں تمہاری کتابیں واپس کئے دیتا ہوں۔” اتنا کہہ کر اجنبی حوض میں اتر گیا اور تمام کتابیں نکال کر مولانا کے حوالے کر دیں۔
مولانا رومؒ شدید حیرت کے عالم میں اپنی قیمت کتابوں کو دیکھنے لگے کسی کتاب کا ایک ورق بھی پانی میں نہیں بھیگا تھا۔ "یہ کیا ہے؟” مولانا رومؒ نے اجنبی سے پوچھا۔
اجنبی نے ایک مخصوص تبسم کے ساتھ نہایت شگفتہ لہجے میں جواب دیا۔ "مولانا! یہ وہ ہے جسے آپ نہیں جانتے۔” اتنا کہہ کر اجنبی چلا گیا اور مولانا جلال الدین رومیؒ حوض کے کنارے دم بخود بیٹھے رہے۔
جس اجنبی شخص کی کرامت نے مولانا رومؒ جیسے نابعۂ روزگار عالم کو حیران کر دیا تھا وہ مشہور بزرگ حضرت شمس تبریزؒ تھے۔
حضرت شمس تبریزؒ کی اس ملاقات نے مولانا رومؒ کی دنیا ہی بدل ڈالی۔یہ ایسا زبردست انقلاب تھا کہ مولانا اپنی روش بھول گئے۔ کتب خانہ بند کر دیا گیا اور درس و تدریس کے تمام سلسلے ختم ہو گئے۔ اب مولانا جلال الدین رومیؒ کو بس ایک ہی کام تھا کہ ہر وقت حضرت شمس تبریزؒ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے یہ ایک ایسی تبدیلی تھی کہ پورے شہر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مولانا کے ہزاروں عقیدت مند برملا کہا کرتے تھے۔
"قونیہ ویران ہو گیا اور اس ویرانی کا سبب وہ جاہل فقیر ہے جس نے ہم سے ہمارا عالم چھین لیا۔”
مولانا جلال الدین رومیؒ کے بعض عقیدت مند اور شاگرد جوشِ جذبات میں حد سے گزر گئے اور وہ حضرت شمس تبریزؒ کے بارے میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔ "کہاں آپ جیسا فاضل انسان اور کہاں وہ بے علم کوچہ گرد؟”
مولانا رومؒ سب کچھ سنتے تھے مگر آپ پر کسی طنز اور کسی طعنہ زنی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کوئی عزیز یا دوست بہت زیادہ جرح کرتا تو بس اتنا کہہ کر خاموش ہو جاتے۔
” تم کیا جانو کہ شمس تبریزؒ کون ہیں؟”
اب ایک مخصوص کمرہ تھا۔ حضرت شمس تبریزؒ تھے اور مولانا رومؒ۔ باقی دنیا سے مولانا رومؒ کا اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا پھر وہ وقت بھی آیا جب مولانا رومؒ کو گھر والوں کا ہوش بھی نہیں رہا۔ بیوی شوہر سے اور بچے باپ سے بد ظن رہنے لگے۔آخر مولانا رومؒ کے اہلِ خانہ بھی حضرت شمس تبریزؒ کو جادوگر کہہ کر پکارنے لگے۔
"تبریز کے سحر نے ہمارا گھر برباد کر دیا۔ خدا اسے غارت کر دے۔”
قونیہ کا ایک ایک شخص حضرت شمس تبریزؒ کو برا بھلا کہہ رہا تھا مگر مولانا رومؒ اسی مردِ قلندر کی بار گاہ میں دست بستہ کھڑے تھے۔
2- حضرت مولانا جامی نے آپ کے متعلق ایک بڑا لطیف واقعہ نقل کیا ہے کہ شیخ شمس الدین 642 ھ دوران سفر قونیہ پہنچے تو خانہ شکر ریزاں میں قیام کیا۔ ایک دن مولانا رومی اپنے تلامذہ کے ساتھ مدرسہ سے باہر نکلے تو آپ سے ملاقات ہوگئی حضرت شیخ نے مولانا کو گھوڑے کی لگام کر روک لیا اور پوچھا مولانا بایزید بسطامیؒ کا رتبہ بلند تھا یا جناب رسول مقبولﷺ کا؟ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ میں اس سوال کی ہیبت سے کانپ اٹھا اور مجھے محسوس ہوا کہ ساتوں آسمان مجھ پر آپڑے ہیں میرے تن بدن میں آگ سی محسوس ہونے لگی اور جذبات کا دھواں آسمان تک پہنچا میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا حضور! میں بایزید کو آپ کے مقام سے کیا موازنہ!مولانا شمس الدین تبریزیؒ کہنے لگے پھر یہ کیا بات ہے کہ حضور نے تو فرمایا ہے کہ ما عَرفَناَ حَق مَعرفَتِکَ (ہم نے تجھے اس طرح نہیں پہنچا جس طرح حق ہے) دوسری طرف حضرت بایزیدؒ دعوی کرتے ہیں۔ سُبْحانی ما اعظم شانی وانا سلطان السلاطین‘‘ (میں پاک ہوں میری شان بہت بڑی ہے۔ میں ہی سلطان السلاطین ہوں) حضرت مولانا نے فرمایا۔ بایزید شربت معرفت کا ایک کاسہ طلب اتنا ہی تھا۔ وہ ایک گھونٹ پی کر سیر ہوگئے اور مطمئن ہوگئے ان کے خلوت کدہ کو روشن دان کی روشنی نے درخشاں کردیا تھا مگر حضور سرور کائناتﷺ ایک بحر بے کراں کے سامنے اپنی تشنگی سے طلب حق کے سلسلہ کو وسیع سے وسیع تر رکھتے تھے آپ کا سینہ مبارک اَلم نَشرحَ لَکَ صَدرکَ (کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا ) یہ سنتے ہی حضرت شیخ شمس تبریزیؒ نے نعرہ مارا تو وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے شاگردوں کی امداد سے آپ کو مدرسہ لے جایا گیا۔ ان کے سر کو اپنے زانو پر لیے تسلی دیتے رہے ہوش آیا تو تین ماہ تک دونوں خلوت گزین رہے اور صومِ وصال میں رہے کسی کو خلوت میں مخل ہونے کی جرأت نہ تھی۔ (ماخوذ ازنفحات الانس جامی)
آپؒ کی وفات کا واقعہ تذکرہ نگاروں نے بڑا دردناک لکھا ہے ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ اور حضرت شمس تبریزؒ ایک خلوت کدہ میں بیٹھے تھے ایک شخص باہر سے آیا اور حضرت شیخ تبریزیؒ کو باہر بلایا۔ آپؒ اٹھے اور حضرت مولانا رومؒ کو خدا حافظ کہتے ہوئے بتایا کہ مجھے قتل کرنے کے لیے بلایا جا رہا ہے مولانا رومیؒ نے کہا (اَلا لَہٗ الخلقُ والامرُ تَبارکَ اللہ رَب العَالمین) حضرت شیخ شمس تبریزیؒ باہر آئے تو سات آدمی کمین گاہ میں چھپے بیٹھے تھے انہوں نے اچانک چھریوں سے حملہ کردیا۔ آپؒ نے نعرہ مارا اور زمین پر گرپڑے افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان حملہ آوروں میں مولانا جلال الدین رومیؒ کا ایک نا خلف بیٹا علاؤالدین محمد بھی تھا مولانا رومؒ نے باہر نکل کر دیکھا تو لاش کی بجائے خون کے چند قطرے فرشِ زمین پر نظر آئے لاش کا پتہ نہ چلا کہ کہاں چلی گئی قاتلانِ شیخ شمس الدین تبریزیؒ کی موت بڑی عبرتناک ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو تھوڑے ہی وقت میں درناک بیماریوں میں مبتلا کرکے مارا۔ مولانا رومؒ کا بیٹا علاؤالدین بھی جذام کی بیماری میں تڑپ تڑپ کر مرا۔ مولانا رومؒ اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ شمس الدین تبریزیؒ مولانا رومؒ کے بیٹے بہاؤالدینؒ کے مزار کے پہلو میں دفن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ان نا مرادوں نے آپؒ کی لاش کو ایک کنویں میں پھینک دیا تھا حضرت مولانا رومؒ کے دوسرے بیٹے سلطان ولد نے خواب میں دیکھا کہ آپؒ نے اسے اطلاع دی کہ میں فلاں کنویں میں ہوں آپؒ کے عقیدت مند کنویں پر پہنچے اور آپؒ کو نکالا اور حضرت مولانا رومیؒ کے مدرسہ کے احاطے میں مدرسہ کے بانی امیر بدرالدینؒ کے مزار کے پہلو میں دفن کردیا۔ سالِ وفات 645 ہجری ہے۔
یاد رہے کہ ملتان (پاکستان) میں جس بزرگ شمس الدّین تبریزیؒ کی قبر ہے وہ شمس الدین سبزواریؒ تھے ان کا مولانا شمس الدین تبریزیؒ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حضرت شمس سبزواریؒ سادات موسوی میں سے تھے ان کی اولاد نے شیعہ مذہب اختیار کرلیا ہے یہی لوگ لاہور میں آکر بسے تو اپنے آپ کو شمس سبزواریؒ کی نسبت سے شمسی کہلانے لگے۔
تاریخ کی مستند کتب مراۃ الاسرار اور دیگر کتب میں آپؒ کا مزار مقدس ترکی میں ھے نیز ملتان میں حضرت شمس الدین سبزواریؒ کا مزار ھے۔ جس کا تعلق مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد سے نہیں۔حضرت شمس الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ مرشد پاک مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ کا اصل مزار ترکی میں ھے اورمولانا شمس الدین تبریزیؒ صیحیح عقیدہ مسلمان، ولی کامل، مجذوب اور قلندرانہ صفت بزرگ گزرے۔ بعض لوگوں نے مولانا شمس تبریزی رحمتہ اللہ علیہ سے جھوٹے روایات منسوب کیے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں …
حضرت مولانا روم رحمۃاللہ علیہ نے حضرت شمس الدین محمد تبریزی رحمۃاللہ علیہ کے بارے میں خود لکھا ہے:
شمس تبریزی کہ نور مطلق است آفتاب است و انوار حق است
شمس تبریزی جو مکمل نور ہے ، سورج ہے اور حق کے انوار میں سے ہے۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نہ شد